Monday, March 18, 2013

مولانا عامر عثمانی



مولانا عامر عثمانی

مولانا عامر عثمانی دیوبند کے  مایہ ناز فرزند تھے۔ دیوبند کے  کتب خانے  سے  انہوں  نے  بہت زیادہ استفادہ کیا۔ وہ حقیقی معنوں  میں  بحر العلوم تھے۔ ۱۹۲۰ء میں  ضلع ہردوئی میں  پیدا ہوئے، پورا نام امین الرحمن تھا، لیکن علمی و ادبی حلقوں  میں  عامر عثمانی کے  نام سے  معروف ہوئے۔ دیوبند سے  سند فراغت حاصل کرنے  کے  بعد متعدد علمی وادبی رسائل میں  لکھنے  لگے۔ بعد میں  اپنا ایک ذاتی رسالہ ’’تجلی‘‘ نکالا، دیوبند کے  طلباء کو یہ رسالہ پڑھنے  کی اجازت نہ تھی، لیکن پھر بھی طلباء چھپ چھپا کر کسی نہ کسی طرح مولانا کے  رسالے  کا مطالعہ کیا کرتے  تھے۔ آپ نے  ثابت کر دیا کہ ادب کے  ذریعہ بھی علم کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ آپ کا انداز بیان اتنا جاذب و دلکش تھا کہ مخالفین لاکھ دشمنی وبغض کے  باوجود آپ کی تحریروں  سے  استفادہ کیا کرتے  تھے۔ ’’تجلی‘‘ نے  علمی و ادبی حلقوں  میں  ایک تہلکہ مچا دیا اور جب تک یہ رسالہ باقی رہا اپنی آن بان اور شان کیساتھ باقی رہا۔ ’’تجلی‘‘ نے  بہت جلد اپنا ایک علمی مقام بنا لیا، مولانا شاعری میں  کسی کے  شاگرد نہ تھے، مگر رئیس المتغزلین جگرؔ  مرادآبادی کے  رنگ میں  شعر کہنے  کی ضرور کوشش کرتے  تھے۔ آپ کا وجدان ہی آپ کا رہنما تھا۔ زبان بڑی ٹکسالی اور دھلی دھلائی تھی۔ جو کہنا چاہتے  بغیر کسی تکلف اور جھجھک کے  صاف صاف کہہ جاتے، کہیں  کسی قسم کے  آورد کا بالکل احساس نہیں  ہوتا۔ ’’تجلی‘‘ میں  ایک مستقل مزاحیہ کالم ’’مسجد سے  میخانے  تک‘‘ کے  عنوان سے  شائع ہوتا تھا۔ آپ ملا ابن العرب مکی کے  نام سے  یہ کالم لکھا کرتے  تھے۔ کتنا اچھوتا اور طنز و مزاح سے  بھر پور اندازِ بیان ہوتا تھا!  یہ کالم اتنا مقبول ہوا کہ اسی کو پڑھنے  کے  لیے  لوگ ’’تجلی‘‘ کے  خریدار بننے  لگے  اور معتقدین عامرؔ  عثمانی میں  روز افزوں  اضافہ ہونے  لگا۔ آپ نے  اپنے  اس کالم کے  ذریعہ ثابت کر دیا کہ طنز  و مزاح صرف تفریحی نہیں  ہوتا بلکہ مقصدی بھی ہوتا ہے۔ دین اسلام اور مسلمانوں  میں  جو کمزوریاں  قلت علم کی وجہ سے  پیدا ہو گئی تھیں، ان پر آپ بڑی گہری اور کاری چوٹ کیا کرتے  تھے  اور ’’نہ جائے  رفتن نہ پائے  ماندن‘‘ والا معاملہ ہوتا تھا۔ 
کبھی ایسا ہوتا تھا کہ مولویوں  کی پیٹ پالو ذہنیت پر بھی آپ چوٹ کرنے  سے  باز نہ آتے۔ (حالانکہ آپ بھی مولانا تھے۔
)  طنز  و مزاح کی جو جو شکلیں  ہو سکتی ہیں، ان تمام کو آپ اپنے  اس کالم میں  استعمال کرتے  تھے۔ مکتبہ صائم دہلی نے  ان کالموں  کا انتخاب بڑے  خوبصورت ٹائٹل کے  ساتھ شائع کیا ہے۔ آج سے  دو سال قبل جب میں  بنگلور کسی کام سے  گیا تھا تو وہاں  اپنے  ایک دوست کے  پاس یہ کتاب دیکھی، اور مجھے  بڑی خوش گوار حیرت ہوئی کہ آج بھی قدر دانانِ عامرؔ  عثمانی باقی ہیں۔
ماہرؔ  القادری (اپنے  وقت کے  ممتاز شاعر، مبصر اور افسانہ نگار) اپنے  رسالے  ’’فاران‘‘ (کراچی) میں  جس خوبصورت اور چبھتے  ہوئے  انداز میں  تبصرہ کرتے  تھے، اس کا تتبع کرنے  کی کوشش بہت سے  حضرات نے  کی لیکن سب کے  سب ناکام رہے۔ سوائے  مولانا عامر عثمانی کے  اور اس بات کا اعتراف خود ماہر القادری نے  کیا تھا۔ خصوصاً علمی کتابوں  پر مولانا جس گہرائی اور دیدہ ریزی سے  تبصرہ کیا کرتے  تھے، یہ ان کا خاص وصف تھا۔ (آج بھی تبصرے  ہوتے  ہیں  لیکن مبصرین تبصروں  پر آج کل زیادہ محنت نہیں  کرتے، الٹا سیدھا جو بھی ذہن میں  آیا لکھ دیتے  ہیں۔ )
ابوالاثر  حفیظؔ  جالندھری نے  شاہنامہ اسلام لکھا تھا اور یہ شاہنامہ بہت مشہور ہوا تھا۔ مولانا عامر عثمانی نے  ’’شاہنامہ اسلام جدید‘‘ کے  نام سے  اسلامی حکایات کو منظوم انداز میں  بیان کرنا شروع کیا تھا اور بعد میں  یہ اشعار کتابی شکل میں  شائع ہوئے۔ نہ صرف شائع ہوئے  بلکہ انتہائی مقبول ہوئے۔ آپ کا کلام سادگی اور پرکاری کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ اثر انگیزی ہر ہر شعر سے  ٹپکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ دل سے  جو بات نکلتی ہے  اثر رکھتی ہے  والی بات آپ کے  کلام میں  محسوس ہوتی ہے، قدرت کا یہ قانون ہے  کہ جو چیز انتہائی معیاری ہوتی ہے  وہ زیادہ دن تک برقرار نہیں  رہتی۔ قدرت کا یہ قانون آپ کسی بھی چیز پر منطبق کر کے  دیکھیں، یقیناً آپ یہ قانون پوری طرح کارفرما  پائیں  گے۔ مولانا پونا کے  ایک مشاعرے  مین شرکت کرنے  کی غرض سے  گئے، حالانکہ آپ بیمار تھے  اور ڈاکٹر نے  باہر نکلنے  سے  منع کیا تھا، لیکن جو اللہ نے  مقدر میں  لکھا ہے  وہ ہو کر رہتا ہے، چنانچہ آپ نے  اپنی ایک نظم بڑے  پر درد انداز میں  سنائی، اور وہ نظم یہ تھی ’’جنہیں  سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں  میں ‘‘ اور دس منٹ بعد وفات پائی۔ مولانا کے  انتقال پر علمی و ادبی دنیا میں  ایک لمحے  کے  لیے  سناٹا چھا گیا، پھر وہ شور اٹھا کہ مت پوچھیے، اخبارات میں تعزیتی مضامین کا تانتا بندھ گیا، ماہرؔ  القادری مرحوم نے  آپ کی وفات پر ’’فاران‘‘ میں  جو تعزیتی مضمون لکھا تھا، اس کی یہ سطریں  مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتی رہیں  گی۔ 
’’مولانا عامر عثمانی کا مطالعہ طویل و عریض اور عمیق تھا، وہ جو بات کہتے  تھے  کتابوں  کے  حوالے  اور عقلی و فکری دلائل و براہین کے  ساتھ کہتے  تھے، پھر سونے  پر سہاگہ زبان و ادب کی چاشنی اور سلاست و رعنائی۔  تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، لغت و ادب غرض تمام علوم میں  مولانا عامر عثمانی کو قابل رشک بصیرت حاصل تھی۔ جس مسئلے  پر قلم اٹھاتے  اس کا حق ادا کر دیتے، ایک ایک جزئیے  کی تردید و تائید میں  امہات الکتب سے  حوالے  پیش کرتے، علمی و دینی مسائل میں  ان کی گرفت اتنی سخت ہوتی کہ بڑے  بڑے  جغادری اور اہل قلم پسینہ پسینہ ہو جاتے۔ ‘‘
میں  نے  جب مولانا کے  کلام کا مطالعہ کیا تو بڑی حیرت ہوئی کہ کتنی سلاست اور روانی آپ کے  کلام میں  ہے۔ ایسی دھلی دھلائی، شیریں  اور پیاری زبان کہ بے  اختیار دل مچل جائے  اور تڑپ تڑپ جائے۔ بڑی بڑی بحروں  میں  بھی آپ بڑے  خوبصورت اور با معنیٰ اشعار کہتے  ہیں۔ آپ کے  اشعار کے  اسی معروضی حسن کی وجہ سے  مرکزی مکتبہ اسلامی نے  آپ کا مجموعہ ’’یہ قدم قدم بلائیں ‘‘ کے  عنوان سے  شائع کیا ہے، اور انتساب ہے  ’’قدر دانانِ عامرؔ  عثمانی کے  نام‘‘ آپ کی ایک غزل کے  کچھ منتخب اشعار پیش ہیں۔ 
یہ قدم قدم اسیری یہ حسین قید خانا
کوئی طوق ہے  نہ بیڑی کوئی دام ہے  نہ دانا
کوئی ہو سمجھنے  والا تو بہت نہیں  فسانہ
کبھی مسکرا کے  رونا کبھی رو کے  مسکرانا
یہ عبادتیں  مرصع یہ سجود مجرمانہ
مجھے  ڈر ہے  بن نہ جائے  مرے  کفر کا بہانا
مرے  زخم بھر نہ جائیں  مجھے  چین آ نہ جائے 
یہ کبھی کبھی توجہ ہے  ستم کا شاخسانا
وہ کبھی جہاں  پہ عامرؔ  مجھے  چھوڑ کر گئے  تھے 
ہے  رکی ہوئی وہیں  تک ابھی گردش زمانا

No comments:

Post a Comment